دودھ پیتے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک لمحہ فکریہ

✒️ مقیت احمد قاسمی گونڈوی ایک سولہ ماہ کا بچہ جو ابھی تک خود سے چل نہیں پا رہا ہے، اُسے موبائل کا اس قدر شوق ہے، یوٹیوب کا اس قدر جنون ہے کہ موبائل کے ساتھ کھانا پینا ، موبائل کے ساتھ سونا جاگنا ، گھنٹوں گھنٹوں موبائل دیکھنا معمول بن گیا ہے ، اور دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ بچہ اُس وقت موبائل کے لیے روتا ہے جب وہ کسی کو موبائل چلاتے ہوئے دیکھتا ہے، موبائل سے اس قدر قربت اس کے اندر آئی کیسے ؟ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ شروع میں وہ بچہ حقیقی چڑیا دیکھ کر بہت خوش ہوتا تھا ، اور دیر دیر تک چڑیا دیکھتا رہتا تھا، سوء اتفاق کسی نے موبائل میں چڑیا دکھا دیا ، بس پھر کیا، موبائل میں چڑیا دیکھنے کا جنون سوار ہو گیا، اور آج ہزار کوششوں کے باوجود اس کا جنون ختم نہیں ہو رہا ہے، یہ واقعہ راقم کے گھر کا ہے اور تقریبا آج ہر گھر کی یہی کہانی ہے کہ ہم بچوں کی موبائل کی لت سے پریشان ہیں، جس سے بچوں کے متعلق بات کریں وہ یہی رونا روتا ہوا نظر آئے گا کہ ہمارے بچے موبائل بہت چلاتے ہیں، لاکھ کوششوں کے باوجود ہم ان کی موبائل فون کی لت کو چھڑا نہیں پارہے ہیں۔ اس موبائل کی وجہ سے نہ پڑھتے ہیں نہ لکھتے ہیں نہ کھیلتے ہیں بس رات دن موبائل ہی میں مصروف رہتے ہیں جس کے سبب وہ ذہنی بیماریوں کے ساتھ جسمانی بیماریوں کے بھی شکار ہوتے جارہے ہیں۔ نظر کی کمی، سردرد، موٹاپا جیسے سیکڑوں امراض ہیں جو ہمارے بچوں سے چمٹ سے گئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو سمجھایا بھی، ڈانٹا بھی، مارا بھی، ڈرایا بھی، دھمکایا بھی اور دوسروں سے بھی یہ سب کراکے دیکھ لیا مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جیسے ہی موبائل چھینا بس رونا شروع اور اس وقت تک چپ نہیں ہوتے جب تک انہیں موبائل مل نہ جائے۔

گھنٹوں موبائل چھپا کر رکھا مگر رونا بند نہیں ہوا تو خواہی نخواہی دینا ہی پڑا۔ چاکلیٹ وغیرہ کا لالچ دیا مگر جیسے ہی چاکلیٹ ختم موبائل کی ضد شروع اب کریں تو کیا کریں؟

ہمارے بچے کو عادت کیسے پڑی ؟

ہم بخوبی جانتے ہیں جب ہمارا بچہ پیدا ہوا وہ موبائل کو نہیں جانتا تھا، جب وہ لاشعوری سے شعور کی منزلیں دھیرے دھیرے طے کررہا تھا تب وہ اپنے ماں باپ کو موبائل پر ہی لگا دیکھ رہا تھا۔ جب بھی والدین کو دیکھا تو موبائل ہی چلاتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی اسی کی طرف مائل ہوگیا۔
کیوں کہ ہم جانتے ہیں بچہ اپنے ارد گرد کے ماحول ہی کو جذب کرکے سیکھتا ہے وہ جو دیکھتا ہے وہی کرتا ہے۔ اگر والدین نماز پڑھتے ہیں تو بچہ اپنے آپ آکر رکوع سجدہ کرنے لگتا ہے، اگر والدین تلاوت کرتے ہیں تو بچے بھی اسی طرف مائل ہوتے ہیں اور اگر والدین مطالعہ کرتے ہیں تو بچہ بھی کتابوں کا شوقین ہوجاتا ہے۔ الغرض: والدین جو کام کرتے ہیں بچہ اسی کام کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔موبائل کے نقصانات پڑوس ملک کے رہنے والے سید عرفان احمد لکھتے ہیں " میرے پاس ایک دن ایک میاں بیوی اپنے چھ سالہ بچے کو لائے، جو ہر وقت بستر پر لیٹا رہتا یا پھر جہاں بٹھا دیا جاتا، وہیں بیٹھا رہ جاتا۔ بچے کی یہ کیفیت دیکھ کر میں نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ کسی ماہر امراضِ اطفال یا نیوروسرجن سے رابطہ کریں، تاکہ وہ بچے کا پورا جسمانی اور دماغی معائنہ کرنے کے بعد کسی تشخیص کے قابل ہو۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ یہ کام کرچکے ہیں، تمام ٹیسٹ نارمل ہیں اور اب معالجین کا کہنا ہےکہ بچے کو کسی قسم کا کوئی جسمانی عارضہ لاحق ہے اور نہ اعصاب میں کوئی رکاوٹ ہے۔ بچے کو مناسب نفسیاتی اور ذہنی مشقوں کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ چھ برس کی عمر میں بچے کی نفسیاتی نمو جتنی ہونی چاہیے تھی، وہ اس کے مقابلے میں چوتھائی بھی نہیں ہے۔

چنانچہ میں نے بچے کا مشاہدہ کرکے والدین سے چند سوالات کیے، جن میں ایک سوال یہ تھا کہ کیا آپ نے اپنے بچے کو کھیل کود کے لیے موبائل فون تو بچپن سے نہیں دیا؟ اس سوال کے جواب میں وہی جواب ملا جو عموماً ننانوے فیصد مائیں دیتی ہیں کہ جب ہم گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں یا بچہ کسی طرح چپ ہونے کا نام نہیں لیتا تو بچے کو خاموش کرانے کے لیے اسے ہمیں مجبوراً موبائل فون تھمانا پڑتا ہے۔ میں نے عرض کیا، آپ کی وقتی مجبوری نے بچے کو زندگی کی معذوری میں بدل ڈالا ہے۔

ذیل میں مزید نقصانات لکھے جاتے ہیں،
(۱) بچوں کے رویوں میں عدمِ توازن پیدا ہو جاتا ہے،
(۲) معاشرتی زندگی میں عدمِ توازن پیدا ہو جاتا ہے،
(۳) ایسے بچے معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں، اور تنہاء تنہاء رہنے لگتے ہیں،
(۴) غصے اور چڑ چڑاپن کا شکار ہو جاتا ہے،
(۵) نیند کی کمی ہو جاتی ہے، بھوک ختم ہو جاتی ہے، اور سستی وتکان بڑھ جاتی ہے، نیز اسکرین میں مست ہوکر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے رہنے سے اس کی کمر بھی ٹیڑھی ہو جاتی ہے،
  (۶) انٹرنیٹ سے فحش مواد تک رسائی ہو جاتی ہے،
(۷) جسمانی ورزش ختم ہوجاتی ہے،
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں جو کہ ہم معاشرے میں دیکھ اور جھیل رہے ہیں، ان نقصانات سے بچنے کے لئے کچھ ایسی تدابیر اور ایسے کام کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ہم اپنی ضرورت کی اس چیز کو استعمال تو کریں مگر اس کے بچوں پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچا جا سکے۔ موبائل سے اپنے بچوں کو کیسے بچائیں؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح اپنے بچوں کو موبائل سے بچائیں؟ تو اس سلسلہ میں مختلف کتب اور بہت سے مضامین سے اخّاذی کرکے ذیل میں کچھ نکات لکھے جارہے ہیں، اگر ان نکات پر پختگی اور تسلسل کے ساتھ عمل کیا جائے تو بہتر نتائج آنے کی امید ہے۔ (۱) گھر کے سارے افراد باالخصوص والدین موبائل کا استعمال بچوں کی موجودگی میں بالکل نہ کریں ، اگر ہم بچہ کے سامنے ہروقت موبائل استعمال کریں گے تو ہمارا بچہ بھی اس کی ڈیمانڈ کرے گا۔اسے لگے گاکہ جس طرح کھانا، پینا، سونا، جاگنا زندگی کاحصہ ہے بالکل اسی طرح روزانہ موبائل کااستعمال بھی اس کی اہم ضرورت ہے۔یاد رکھیں بچہ سنتاکم ہے دیکھتازیادہ ہے۔ ( ۲ ) اپنے بچوں کووقت دیں،

ہمارے بچے موبائل اسی وقت لیتے ہیں جب وہ فارغ ہوتے ہیں۔ انھیں سمجھ ہی نہیں آتاکہ وہ کیاکریں۔ پہلے تو ان کی بوریت دورکریں ان کے ساتھ کھیلیں، انھیں تنہائی سے بچائیں۔کسی بھی بچے کی ذہن سازی ،خیال سازی اورشخصیت سازی کے لئے ہیومن ٹچ بہت ضروری ہے۔ (۳) کسی بھی طرح کی ویڈیوز بچہ کوموبائل پردکھانے کی عادت نہ ڈالیں ، اگر ہمیں اپنا بچہ اوراس کی صحت عزیز ہے توبچہ کوضدکرنے ،رونے،کھانا نہ کھانے پرموبائل ہرگز نہ دیں۔ یاد رکھیں موبائل فون کی بے جا عادت اب نشہ میں شمارہوتی ہے۔ ایسی صورت میں جب تک ہمارا بچہ اسے ہاتھ میں نہ لے لے مطمئن نہیں ہوتا۔ ( ۴ ) موبائل فون ہمیشہ ہاتھ میں نہ رکھیں،

اگر ہم اپنے ہاتھ میں موبائل فون رکھیں گے تو ہمارا بچہ بھی رکھے گا۔ اس بات کااحساس سب سے پہلے ہمیں کرنا پڑے گا کہ صرف ضرورت کے وقت ہی موبائل اپنے ہاتھ میں رکھیں، اگر ہم خودہروقت موبائل استعمال کریں گے تو ہمارا بچہ بھی اسی عادت کواپنائے گا کیونکہ ہمارا بچہ ہمارا ہی طرزعمل اختیارکرتاہے۔ ( ۵ ) کھاتے وقت بچہ کوموبائل ہرگزنہ دیں یہ نہ سوچیں کہ وڈیودیکھتے دیکھتے بچہ کھاناآرام سے کھالے گا۔

گھرکے تمام افراد کے لئے دسترخوان پرموبائل ساتھ رکھنے پرپابندی لگائیں۔
ہفتے میں ایک دفعہ ایک گھنٹہ کے لئے بچوں کوموبائل دینے کااصول مرتب کریں۔
ہروقت اورہرجگہ موبائل فون کوسامنے ہرگزنہ رکھیں۔ (۶) سوتے وقت موبائل فون تکیے کے نیچے نہ رکھیں۔ آخر میں سب سے اہم بات اللہ کی طرف رجوع ہے اپنے بچوں کے لئے ہم سب اللہ سے خوب دعامانگیں۔ فتنوں کے اس زمانے دعاء ہی ایک مسلمان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی چیز گمراہ نہیں کرسکتی اور جسے اللہ ہدایت نہ دے تو ابوجہل خانہ کعبہ میں  پیداہو کربھی بدنصیب رہا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی مذکورہ باتوں پر ہمیں مکمل عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، اور ہماری نسل کی حفاظت فرمائے آمین۔ بقلم: مقیت احمد قاسمی گونڈوی

امام وخطیب مسجد ناصر العلوم ، وصدر مدرس مدرسہ ناصر العلوم، صاحب گنج ، بڑگاؤں، گونڈہ ، یوپی،

Design a site like this with WordPress.com
Get started